اسلام آباد(نیوز ڈیسک )آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم رہنماؤں کے بیانات توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس پر ان کیخلاف توہین عدالت کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی
جانب سے فل کورٹ کا مطالبہ نہ ماننے پر پی ڈی ایم رہنماؤں کی عدالت عظمیٰ پر تنقید پر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کیجانب سے فل کورٹ نہ بنانے پر پی ڈی ایم کا واویلا بے جا ہے۔ چیف جسٹس کےپاس
اختیارہے کہ فل کورٹ تشکیل دیں یا نہ دیں۔اس حوالے سے آئینی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے وکلا کوئی آئینی نکتہ یا دلیل نہ دے سکے۔ کیس میں کوئی آئینی نکتہ نہیں تھا جس پر فل کورٹ بنایا جاتا۔ پی ڈی ایم کی
جانب سے بلاجواز عدلیہ پر تنقید کی گئی۔ چیف جسٹس پر فل کورٹ کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم رہنماؤں کے بیانات توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس پر ان کیخلاف توہین عدالت
کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس اگر کارروائی نہیں کر رہے تو یقیناً تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔آئینی ماہرین نے کہا کہ چیف جسٹس پی ڈی ایم درخواستیں چیمبر میں بھی سن کر فیصلہ کر سکتے تھے۔ چیف
جسٹس پاکستان نے معاملہ بینچ میں لا کر سماعت کی اور بینچ نے وکلا کے دلائل سن کر درخواستیں مسترد کیں۔واضح رہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سے نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے کئی عدلیہ پر تنقیدی بیانات سامنے آچکے ہیں۔