اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سینئر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن حمزہ شہباز کا آئین کے تحت عبوری وزیراعلیٰ بننا ممکن نہیں تھا، عمل کے جاری رہنے کے دوران امیدوار کو عہدہ کیسے دے سکتے ہیں۔ سینئر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے حمزہ شہباز کو عبوری وزیراعلیٰ برقراررکھنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز کا آئین کے تحت عبوری وزیراعلیٰ بننا ممکن
نہیں تھا، عمل کے جاری رہنے کے دوران امیدوار کو عہدہ کیسے دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عجیب سا فیصلہ ہے کہ عہدہ دے دیا لیکن
اختیارات استعمال نہیں کرے گا، عبوری وزیراعلیٰ لگانا عدالت کا اختیار نہیں ہے، عبوری وزیراعلیٰ کے لیے آئین میں باضابطہ طور پر ایک شق موجود ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ لارجر بینچ بنانا ضروری نہیں 3 یا 5 ججز کا بینچ بھی فیصلہ کرسکتا ہے، کیس کے لیے 5 رکنی بینچ سے زیادہ
کی ضرورت نہیں ہے، 17 جج بٹھانا ایسا ہی ہے نا نو من تیل ہوگا نا رادھا ناچے گی۔ سینئر قانون دان نے کہا کہ میرا خیال ہے کورٹ کے سامنے ایشو واضح ہوگیا ہے، میرے خیال میں پیر کو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر فیصلہ ہوجانا چاہیے، انہوں نے آرٹیکل 63 اے کو
دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک حصہ پارٹی ہیڈ اور دوسرا حصہ پارلیمانی پارٹی کا ہے، پارلیمانی پارٹی ایوان میں مقابلہ کرتی ہے وہ جانتی ہے ہماری کیا طاقت ہے، پارٹی ہیڈ چاہے لندن بیٹھا ہو یا اٹلی وہ بحث کے قریب تر نہیں ہوتا، پارلیمانی پارٹی ہاں یا نہ کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی میں ارکان میں اختلاف ہو تو
پارٹی ہیڈ گرینڈ فادر کا کردار ادا کرتا ہے، پارلیمانی پارٹی اور پارٹی ہیڈ 2 الگ الگ چیزیں ہیں، پہلےفیصلہ پارلیمانی پارٹی کا ہے دوسرا فیصلہ پارلیمانی لیڈر کا ہے، سپریم کورٹ نے پارلیمانی پارٹی کےحق میں فیصلہ دیا تو شریف ڈاکٹرائن ناکام ہوگی، انہوں نے تو پوری کوشش کی ہے کہ پارٹی سربراہ کے ہاتھ میں سب رہے۔