نسیم شاہ پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جو 2003 میں کے پی کے علاقے لوئر دیر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی اور پھر کرکٹ کی جانب رجحان بڑھنے لگا۔ چونکہ پاکستان کے قبائلی علاقے امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے کافی حساس رہ چکے ہیں، لیکن اس سب میں نسیم شاہ نے نہ صرف مشکل دنوں کو برداشت کیا بلکہ
اپنے شوق کو بھی مرنے نہیں دیا۔ نسیم بتاتے ہیں بچپن میں کرکٹ کھیلتا تھا مگر یہ نہیں پتہ تھا کہ کرکٹ ایک کھیل ہے اور عالمی طور پر اس طرح ایونٹ ہوتے ہیں۔ مجھے شوق تھا کہ میں گھر سے نکلوں اور کرکٹ کھیلوں، یہاں تک کے کلاس کے دوران بریک میں کرکٹ کھیلنے کا سوچتا تھا۔ پہلی بار جب شین وارن کو کرکٹ کھیلتے دیکھا تو کرکٹ کی سمجھ لگی، میرا خواب تھا کہ میں
بھی اسی کی طرح کرکٹ کھیلوں۔ نسیم پُر امید ہیں کہ آگے بھی اسی طرح کھیل کو جاری رکھیں گے جس طرح انہوں نے پاکستان اور بھارت کے میچ میں کارکردگی دکھائی تھی۔ نسیم شاہ پاؤں میں موچ کی وجہ سے تکلیف میں تھے اور چہرے سے بھی تکلیف واضح تھی، اس کے باوجود ہار نہ مانی اور ثابت کر دیا کہ ہمت اور حوصلہ آپ کو تھکنے نہیں دیتے ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی نسیم پر آیا تھا جب ان کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے تھے اور وہ شدید تکلیف میں تھے کیونکہ
ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اور وہ ان کے پاس موجود نہیں تھے۔2019 میں نسیم اس اسکواڈ کا حصہ تھا جو کہ آسٹریلیاء کے خلاف ٹیسٹ کھیل رہا تھا، لیکن اچانک والدہ کے انتقال نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا، نسیم کی والدہ بیمار تھیں تاہم ان کی آخری رسومات میں نسیم شرکت نہ کر سکا۔ نسیم نے وطن واپس نہ آنے کا فیصلہ
گھر کے بڑوں سے مشاورت کے بعد کیا تھا، پریس کانفرنس میں نسیم والدہ کو یاد کرتے ہوئے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائے تھے اور رو دیے تھے۔سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نسیم ہر خوشی کے موقع پر والدہ کے پاس جاتے ہیں، 2020 کی عید بھی نسیم نے والدہ کے ساتھ بتائی تھی، ان کی قبر پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی تھی۔ جبکہ نسیم نے لکھا کہ پہلی عید امی کے بغیر۔ ساتھ ہی نسیم نے ایک شعر بھی لکھا کہ خاک مرقد پہ تیری لے کے یہ فریاد آؤں گا اب دعائیں نیم شب میں، میں کس کو یاد آؤں گا