وزیر خزانہ کی جانب سے جولائی تک تیل کی قیمتوں پر سبسڈیز ختم نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کے نادھندہ ہونے کے خطرات سے متعلق بیان نے ڈالر کو بے لگام کردیا اور منگل کو بھی ڈالر کی بلند پرواز جاری رہی جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ ملکی تاریخ میں پہلی بار 207روپے سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔
کاروبار کے دوران امریکی ڈالر 1.95 روپے اضافے سے 207.11روپے کا ہوگیا ہے۔
وزیر خزانہ کے مذکورہ بیان سے کاروبار کے آغاز پر ہی پاکستانی روپیہ پر یکدم دباؤ کی شدت بڑھ گئی تھی اور زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی کیونکہ وزیر خزانہ نے اپنے بیان میں چند ہفتے قبل ہی نادہندہ ہونے والے ملک سری لنکا سے پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے سری لنکا کی نادھندگی کی وجہ پیٹرولئیم مصنوعات پر سبسڈی قرار دیا۔
وزیرخزانہ کی جانب سے سخت فیصلے نہ کرنے کی صورت میں دیوالیہ ہونے کے خدشات کے بیان سے مارکیٹ پلئیرز کو اس بات کا خدشہ پیدا ہوا کہ آئندہ چند روز میں پیٹرولئیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید نمایاں اضافہ کردیا جائے گا، جو نہ صرف مہنگائی میں ہوشربا اضافے کا باعث بنے گا بلکہ معیشت کے تمام شعبوں کے لیے مشکلات بڑھانے کا بھی باعث بنے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15 سے 16ارب ڈالر جبکہ تجارتی خسارہ 45ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پہنچنے کا امکان ہے۔ 7جولائی کی مانیٹری پالیسی میں بھی سود کی شرح مزید ایک سے دو فیصد بڑھنے کا امکان ہے۔ ان عوامل کے باعث زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں طلب ورسد غیر متوازن ہونے سے روپیہ پر یومیہ بنیادوں پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
گزشتہ روز ڈالر کے انٹر بینک ریٹ ملکی تاریخ میں پہلی بار 205روپے سے تجاوز کرگئے تھے جبکہ اوپن ریٹ 206روپے کی سطح سے اوپر چلے گئے تھے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایندھن درآمد کرنے کے لیٹر آف کریڈٹ کھول رہی ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی کا باعث بن رہی ہے جس سے اسٹیٹ بینک زرمبادلہ کے ذخائر سنگل ڈیجٹ پر آگئے ہیں۔
اسی طرح ماہوار بنیادوں پر ترسیلات زر کی آمد میں 25 فیصد کی کمی سے مارکیٹوں میں طلب کی نسبت رسد میں کمی نے روپیہ کو بے قدر کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں مطلوبہ حد تک نیچے نہ آنے، ملک پر بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ اور آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی اور قسط کے اجراء میں تاخیر سے یومیہ بنیادوں پر مالیاتی بحران کی شدت بڑھ رہی ہے جو زرمبادلہ کی مارکیٹوں پر اثر انداز ہیں۔