اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ میری عمران خان کے ساتھ ملاقات ہوئی اس میں تھوڑی سی سیاست پر بھی گفتگو ہوئی انہوں نے بہت سی پرانی باتیں کی لیکن جو گفتگو تھی ان کے ساتھ اس میں ظاہر ہی بات ہے کچھ چیزیں جو ہیں ان کو میں publiclyتو میں بات نہیں کر سکتا لیکن مجھے اس سے تاثر یہی ملا کہ
عمران خان صاحب جو ہیں وہ تھوڑا سا اپنا جو ان کا موقف ہے کچھ ایشوز پر اس کے اوپر سوچ رہے ہیں اور میرے ساتھ جو میٹنگ تھی اس سے پہلے ان کی ایک بڑی امپورٹنٹ میٹنگ ہوئی تھی اسد عمر ، پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ اور اس میٹنگ میں فواد چوہدری صاحب بھی موجود تھے تو بعد میں مجھے پتہ چلا کہ
اس میٹنگ میں یہ ان معاملات پر بات ہوئی تھی کہ جو ادارے ہیں ان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے اور پھر جب میرے ساتھ ان کی بات ہوئی تو اس میں بھی یہ ایشو زیر بحث آیا اس ایشو پر عمران خان جو ہیں انہوں نے کوئی بیک گراؤنڈ مجھے بتائی پس منظر دیا کہ ان کے مسئلے کہاں پر شروع ہوئے تھے کوئی تین چار واقعات انہوں نے بتائے لیکن مجموعی طور پر مجھے لگ رہا تھا کہ وہ ہر طرح کی
صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں اگر ان کے ساتھ لڑائی کی جائے گی ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے لئے بھی ان کے پاس لائحہ عمل ہے اور اگر کوئی بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے لئے بھی ان کے پاس اپنی شرائط موجود ہیں تو وہ بظاہر انہوں نے تاثر مجھے یہی دیا کہ وہ لڑائی کے لئے بھی تیار ہیں اور انتخابات کے خاطر بات چیت کے لئے بھی تیار ہیں۔ عمران خان صاحب جو ہیں ناں وہ convincedہیں کہ کہیں ناں کہیں پر ان کے خلاف فیصلہ کیا جا چکا ہے انہیں ہر قیمت پر
disqualifyبھی کرناہے اور پھر ultimatelyان کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی یہ ذہنی طور پر کلیئر ہیں تو وہ کیوں کہ اس وقت ایک political angleسے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں کیوں کہ آپ کو یاد ہوگا کہ پہلے بھی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے کیس میں وہ معافی مانگ چکے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دفعہ وہ فوری طور پر معافی مانگنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں تو شاید ان کے ساتھ گفتگو سے میں نے یہ اندازہ لگا یا کیوں کہ ان کو پتہ ہے کہ فیصلہ تو پہلے ہی کیا جا چکا ہے اور میں دوبارہ کہوں گا کہ یہ ان کا خیال ہے میرا خیال نہیں ہے تو ان کو پھر مشورہ بھی ایسا ہی دیا گیا ہے کہ پھر آپ پہلے اپنا دفاع کر لیں کوئی ٹیکنیکل طریقے سے دیکھ لیں کہ عدالت کا موڈ کیا ہے تو ان کا یہ خیال ہے کہ اگر فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا ہے تو مجھے معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔پھر میں جا کر تو پبلک جو ہے اس کو کیا کہوں گا تو شاید یہ ان کے ذہن میں ہے اور ایک بات شاید ان کے ذہن میں یہ بھی ہے وہ بڑے convincedہیں اس پر کہ میں نہ تو
نواز شریف ہوں اور نہ میں یوسف رضا گیلانی ہوں اور اگر میرے خلاف کوئی ایکشن کیا گیا یا مجھے disqualifyکیا گیا یا مجھے گرفتار کیا گیا تو ان کا یہ خیال ہے کہ اسلام آباد جو ہے اس پر خیبر پختونخوا سے بھی سیاسی یلغار ہوگی اور پنجاب سے بھی سیاسی یلغار ہوگی اور شہباز شریف کی حکومت اور رانا ثناء اللہ کی پولیس اور دیگر جو ادارے ہیں وہ عمران خان کی سیاسی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔یہ ان کا مجھے لگا کہ ان کا یہ خیال ہے تو دیکھئے اب اگلے دنوں میں ہوتا کیا ہے تو ذاتی طور پر میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ان کو عدالت کے ساتھ confrontنہیں کرنا چاہیے ان کو معافی مانگنی چاہیے لیکن وہ جو بھی حکمت عملی بنا رہے ہیں وہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے وہ قانونی حکمت عملی نہیں ۔