عدالتی فیصلے کے خلاف حکومتی اتحاد ڈٹ گیا،اہم فیصلہ

فل کورٹ نہ بنانے کے فیصلے پر حکومتی اتحاد نے مقدمے کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ سربراہ پی ڈی ایم فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر فل کورٹ کی درخواست مسترد کی جاتی ہے تو ہم بھی اس

عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ اسلام آباد: حکومتی اتحادیوں اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تین رکنی بنچ ہی

سماعت کرے گا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کو میرٹ پر سنیں گے، معاملہ کا جائزہ لیا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی اور چودھری شجاعت حسین کے فریق بننے کی درخواستیں منظور کرتے ہیں۔ آگے چل کر دیکھیں گے فل کورٹ

بنچ کا کیا کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے، اس عدالت نے ضمیر کیساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں چلا جائے۔ ذرائع کے مطابق فیصلہ آنے کے بعد حکمران

اتحاد اور پی ڈی ایم کے قائدین کا مشاورتی اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں جاری ہے جس میں قائدین نے فیصلہ کیا کہ فل کورٹ کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔ اجلاس میں وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف، سربراہ پی

ڈی ایم مولان فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ساتھ نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نوازشریف اور ن لیگ کے دیگر قائدین بھی اجلاس میں شریک ہیں۔ اجلاس میں ق لیگ، اے این پی، ایم کیو ایم، بی اے پی، بین این پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین بھی موجود تھے۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی

میں مستقبل کی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے اور تمام اتحادی قائدین نے ممکنہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے متفقہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور صوبائی وزیر قانون عطاء تارڑ نے سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ تشکیل نہ دیا گیا تو ہم عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر

فل بنچ تشکیل نہ دیا گیا تو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر معزز عدالت سے استدعا کی ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے، اس سے عدالت کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ ہماری استدعا ہے نظرثانی پٹیشن اور متعلقہ پٹیشن کو اکٹھا سنا جائے، الیکشن کمیشن نے 25 ارکان کو پارٹی سربراہ کی ہدایات نہ ماننے پر ڈی سیٹ کیا تھا۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ میاں محمد نواز شریف کو سزا سنائی گئی تو فیصلے کیخلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی، 2015 میں فل کورٹ نے کہا یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے، 5 جج صاحبان نے کہا پارٹی میں سب سے مضبوط عہدہ پارٹی سربراہ کا ہوتا ہے، آئین کی ایسی تشریح کر دی گئی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔

Scroll to Top