الیکشن کمیشن کا عارف نقوی سے متعلق پیرا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پی ٹی آئی نے جانتے بوجھتے عارف نقوی سے فنڈز وصول کیے جس پر الیکشن کمیشن کا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کو

معلوم تھا کہ بزنس ٹائیکون عارف نقوی پر کریمنل فراڈ کے الزامات ہیں اسکے باوجود تحریک انصاف نے عارف نقوی سے فنڈز وصول کئے۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ ابراج گروپ پر کیس 2019میں بنا جبکہ

تحریک انصاف نے فنڈز 2012 میں وصول کئے۔عارف نقوی پر تو 2012 میں کوئی کیس نہیں تھا ، کیا تحریک انصاف کو الہام ہونا چاہئے تھا کہ 7 سال بعد عارف نقوی پر کیس بنے گا اور اسے فنڈز نہیں لینا چاہئے تھے؟

سوشل میڈیا صارفین نے طنز کیا کہ یہ تحریک انصاف کی بڑی ناکامی ہے کہ 2012 میں پتہ نہ چل سکا کہ عارف نقوی کے خلاف 2019 میں کریمنل کیس بننے ہیں خاورگھمن کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت کافی ہےالیکشن کمیشن

کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے۔جس وقت ابراج گروپ نے پیسے تحریک انصاف کو دیے اس وقت کمپنی پر کوئ کیس نہیں تھا۔ابھی بھی عارف نقوی پر الزامات ہیں کیس فائنل نہیں ہوا۔لیکن کمیشن کہتا ہے تحریک انصاف نے جانتے بوجھتے ایک فراڈ سے پیسے لیے۔ مسئلہ صرف خان سے ہے فوادچوہدری نے بھی الیکشن

کمیشن پر طنز کیا کہ عارف نقوی پر 2012 میں کوئی الزام نہیں تھا تو 2012 میں پی ٹی آئی کو کیسے پتہ چلے گا کہ 2019 میں شریف آدمی پر فرد جرم عائد کی جائے گی؟ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے لیے میرٹ کی بجائے ٹیرو کارڈز پر انحصار کیا۔ اس پر اکبر نامی سوشل میڈیا صارف نے طنز کیا کہ اب اس

لاجک پر ن لیگی یہ نہ کہنا شروع کردیں کہ شوکت خانم کرپشن کے پیسے سے بنا ہے کیونکہ انکے مطابق نوازشریف نے شوکت خانم کو 90میں فنڈز دئے تھے اور نوازشریف 2018 میں کرپٹ اور چور ثابت ہوکر سزا کاٹ کررہا ہے۔ علی سلمان علوی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس سے زیادہ تحریک انصاف کی نااہلی اور کیا

ہو سکتی ہے کہ 2019 میں ابراج گروپ کے پاکستانی نژاد بانی عارف نقوی پر مالی بدعنوانی کے الزامات لگے اور یہ اس شخص سے 2012 میں فنڈز لیتے رہے؟ کیا تحریک انصاف نہیں دیکھ سکتی تھی کہ 7 سال بعد یہ شخص مالی بدعنوانی کے حوالے سے امریکی الزامات کی زد میں آئے گا۔ جنید کا کہنا تھا کہ جب فیصلے قانون

کی بجائے پراپگنڈہ اور خواہشات پر لکھے جائیں تو یہی ہوتا ہے عارف نقوی پر فراڈ کے الزامات 2017 میں لگے الیکشن کمیشن اسکو بنیاد بنا کر تحریک انصاف کو رگڑا لگا رہا ہےکہ آپ نے 2012 میں فنڈنگ کیوں لی۔ محمد شہزاد نے طنز کیا کہ عمران خان کو 2012 میں پتا ہوتا کہ ابراج گروپ والے 2019 میں فراڈ کریں گے تو شائد فنڈ نا لیتا۔ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ جیسے مریم نواز نے 2006 میں ہی وہ والا کیلبری فونٹ استعمال کر لیا تھا جو 2007 میں آنا تھا۔ ویسے ہی تحریکِ انصاف کو 2012 میں پتہ ہونا چاہیے تھا کہ عارف نقوی کیخلاف 2017 میں سرمایہ کاروں کو دھوکہ دہی کی تحقیقات ہونے والی ہیں۔

Scroll to Top